INTEHAYE WASAL NOVEL EPISODE 1
Episode 1
صبح کی ٹھنڈی ہوا میں پرندے اللہ کی حمد و ثنا میں مصروف تھے کمرے کی کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے نومبر کی خنکی بھری ٹھنڈی ہوا کمرے میں ا رہی تھی مرحا ایسے میں اپنے بستر پر چادر اوڑ کر سو رہی تھی جیسے ہی اذان ہوئی مرہا کے سائیڈ ٹیبل پہ بڑا بڑا الارم بجنے لگا میرے خان نے ایک ہاتھ اٹھا کر سات سے ہی الارم کو بند کر دیا اور کروٹ بدل کر فوری طور پر پھر نیند کی وادیوں میں چلے گئی اسیہ بیگم نماز ادا کرنے کے بعد قران مجید کی تلاوت کر رہی تھی کہ ان کے ذہن میں مرہا کا خیال ایا وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر مرہا کو جگانے کے لیے ائی کمرے میں اتے ہی جب انہوں نے مرہ کو سوتا پایا تو غصے سے مرہا کو اواز دی اپنی اماں جان کی اواز سن کر مرحبا فورا بستر سے اٹھی اور بھاگ کے واش روم میں چلی گئی اگلے پانچ منٹ میں ہی وہ مصلے پر موجود تھی پانچ منٹ میں ہی نماز ادا کرنے کے بعد وہ قران مجید لے کر تلاوت کرنے کے لیے بیٹھ گئی کیونکہ وہ یہ بات بہت اچھے سے جانتی تھی کہ اس بار اماں جان زبان سے تو بالکل کام نہیں لیں گی کچھ دیر بعد وہ کالج کے لیے تیار ہو کر نیچے ناشتے کی میز پر بیٹھی تھی ہاتھوں پہ لگی سیاہی یہ بات بتا رہی تھی کہ وہ اج پھر اپنا سکول کا کام کرنا بھول گئی تھی جس کی وجہ سے وہ ابھی عجلت میں اپنا کام مکمل کر کے ائی ہے ناشتے کے دوران لگاتار وہ ہمدانی صاحب سے خوش گپیاں لڑانے میں مصروف تھی کچھ دیر میں اس کو یہ احساس ہوا کہ وہ اس کو بہت دیر ہو چکی ہے جب باہر وین والے کی اواز سنائی دی وہ بھاگتی دوڑتی وین تک پہنچی اور سکول کے لیے روانہ ہو گئی سکول جا کر ان کو یہ پتہ چلا کہ ان کے میتھس کے کھڑوس ٹیچر کسی وجہ سے سکول چھوڑ کر جا چکے ہیں وہ اس بات پر خوش ہی ہو رہے تھے کہ ان کو یہ علم ہوا کہ نئے ٹیچر بھی ا چکے ہیں جیسے ہی میچ کی کلاس شروع ہوئی پرنسپل صاحبہ ان کے کمرے میں ائی اور ان کو کچھ باتیں بتانے کے بعد وہ کلاس روم سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ کچھ ہی دیر میں ان کے نئے ٹیچر کلاس میں ائیں گے ابھی پرنسپل صاحبہ کے جانے کو دو سے تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ مرہا ٹیچر کے ڈائس پر کھڑی ہو کر اپنے پرانے ٹیچر کی نقل اتار رہی تھی اور ان کی طرح پڑھا پڑھا کر سب کو ہنسا رہی تھی اپنی شرارتیں کرتے ہوئے اسے اس بات کا بالکل اندازہ نہ ہوا کہ کب اس کے سامنے بیٹھے سب لڑکیاں سیدھی ہو کر بیٹھ چکی ہیں اور ان کے نئے ٹیچر اس کے پیچھے ہی کھڑے ہیں جب انہوں نے اپنی گنبھیر اواز میں سپاٹ لہجے میں السلام علیکم کہا تو مرہا ہوش کی دنیا میں واپس ائی اور بھاگتی اپنی کرسی پہ جا کے بیٹھ گئی ٹیچر نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے صرف چند الفاظ کا استعمال کیا ائی ایم مسر ائی ایم مسٹر ترخان یور یور نیو میتھ ٹیچر اور انہوں نے پڑھانا شروع کر دیا پڑھاتے ہوئے ان کی نظر نہ جانے کیوں بار بار مرہا کی دودھیا رنگت پر جا رہی تھی وہ اپنے معصوم چہرے کے ساتھ بہت ہی حسین لڑکی تھی جب جب کلاس کی تمام لڑکیاں ٹیچر کو دیکھنے میں زیادہ اور بورڈ کو کم دیکھنے میں مصروف تھی تب مرہا کی نظریں صرف بورڈ کے اوپر تھی
وہ اپنا کام کر کے اپنی کتابوں میں کھوئی نظر ائی چونکہ میتھس کے ٹیچر کی کلاس اج اخری تھی تو ترخان صاحب نے سب لڑکیوں کو کلاس سے جانے کا اشارہ کیا جب سب کلاس سے نکل رہے تھے مر ہا کو اس نے ہاتھ کے اشارے سے روکا مرہ ان کے سامنے جا کر معصوم شکل بنا کر نظریں جھکا کر کھڑی ہو گئی انہوں نے صرف چند الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے مرہا سے کہا کہ ٹیچرز کی نقل نہیں اتارا کرتے ان کا لہجہ نہ تو بہت نرم تھا اور نہ ہی بہت سخت مگر چہرے پر سپاٹ تاثرات سجائے انہوں نے یہ بات جب مرہا کو کہی تو مرہا کو ایسا لگا کہ وہ شرمندگی کے گہرے کنویں میں گر گئی ہے اس کو لگا کہ اس کو نئے ٹیچر کے سامنے بہت زیادہ be izzat* کر دیا گیا ہے وہ کلاس سے باہر نکلی تو اس کی دوستوں نے اس کا وہیں پر انتظار کر رہی تھی وہ غصے میں ا کر اپنے ساتھ ہوئی داستان سنا ہی رہی تھی کہ اس کی ایک دوست عائشہ نے کہا کہ ویسے ہیں تو بہت ہینڈسم تو اس نے جب امن کہا ہاں کہاں کے ہینڈسم کھڑوس ترین انسان ہیں وہ ان کو ان القابات سے نواز ہی رہی تھی کہ وہ پھر اس کے پیچھے ا کے کھڑے ہو گئے اور کچھ بھی کہے بغیر سائیڈ سے گزر گئے مرہا کو لگا کہ اس کو اب اپنا سر ہی دیوار میں مار لینا چاہیے یا اللہ انسان ہیں کہ جن جب کوئی بات کرو سامنے ا جاتے ہیں میرا ایسے ہی مایوس سی ہستی باتیں کرتی اپنے گھر پہنچ گئی
Next episode is in next Post
Comments
Post a Comment