INTEHAYE WASAL EPISODE 3
Intehaye wasal Episode 3
کمرے میں مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا صرف ایک ٹیبل لیمپ کی روشنی تھی جس میں ایک وجود مسلسل کچھ لکھ رہا تھا ٹیبل پر کاغذ بکھرے ہوئے تھے جگہ جگہ پھٹے اور بکھرے ہوئے کاغذ زمین پر بھی پھیلے ہوئے تھے دو چائے کے کپ میں اس پر ہی پڑے ہوئے تھے وہ جب اپنا کام کرنے لگتا اس کے سامنے وہ معصوم سا چہرہ انے لگتا وہ کمزور عصاب کا مالک مرد نہیں تھا اس اس نے اپنی 27 سالہ زندگی میں کسی بھی لڑکی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا یا کوئی بھی لڑکی اس کو خود کی طرف متوجہ نہیں کر پائی تھی یہ بات اچھے طریقے سے جانتے ہوئے کہ اس کی اسسائنمنٹ سبمیشن کی کل لاسٹ ڈیٹ ہے اور یہ اس کا ایم فل کا لاسٹ ایئر ہے بار بار انے والے خیالات اور وہ حسین چہرہ نظروں کے سامنے انے کے باعث وہ اپنا کام اور بکھرے کاغذ وہی میز پر چھوڑ کر اپنے بستر پر اوندھے منہ ا لیٹا اس کی انکھوں کے سامنے بار بار وہ معصوم ہنسی اور وہ نیلی گہری انکھیں ارہی تھی اسے اس بات کا ہرگز اندازہ نہ ہوا کہ کب وہ اپنے خیالات میں گم نیند کی وادیوں میں چلا گیا
-----------------------
مرہا ہر روز کی طرح صبح لیٹ تھی وین والے انکل ہون دے کر جا چکے تھے اور اب وہ ریحان بھائی کے ساتھ سکول کی طرف روانہ ہو رہی تھی ریحان بہت محبت سے اس سے اس کی پڑھائی کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور اس کی سب باتیں سننے کے بعد اس نے صرف ایک ہی جملے میں اس کو سمجھانا چاہا کہ" مرہا گڑیا اپنی پڑھائی پر توجہ دیں لڑکیوں کے لیے تعلیم بہت زیادہ ضروری ہے "ریحان نے کہا اور مرہا نے بس سر ہلا دیا اور وہ اس کو پھر سے اپنی روز مرہ کی کہانیاں سنانے لگی کیسے باتیں کرتے کرتے وہ سکول پہنچ گئے پتہ ہی نہ چلا میرے ہاں سکول کے اندر چلی گئی اور ریحان کام سے چلا گیا منہا نے اج اپنا سارا کام بہت جلدی جلدی نپٹانے کی بہت کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہی اخری کلاس ترہان صاحب کی تھی کلاس میں کام کرنے کے بعد وہ سب سے پہلے اپنے کوسچن سالو کر چکی تھی اور کوسچن سالو کرنے کے بعد وہ ترخان صاحب کے پاس اپٹا سوال چیک کروانے کے لیے کھڑی تھی وہاں کھڑے کھڑے اس کو کب چکر انے لگے اس کو پتہ ہی نہیں چلا شاید صبح ناشتہ نہ کرنے اور سارا دن کچھ نہ کھانے کی وجہ سے اس کو چکر اگیا تھا ابھی وہ گر کر بے ہوش ہی ہوتی کہ ترترہان نے اگے بڑھ کر اس کو اپنے بازوں میں سنبھال لیا گرنے سے بچانے کے بعد وہ بہت پریشانی سے اس کا گال تھپتھپا رہا تھا اتنے میں ہی عائشہ اپنے بین سے اٹھ کر بھاگتی ہوئی اگئی عائشہ نے پانی کے چھینٹے اس کے منہ پر گراتے ہوئے اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہی ترخان بہت زیادہ پریشان ہو گیا تھا نومبر کی سردی میں بھی اس کے ماتھے پر پریشانی سے پسینہ اگیا تھا اس نے نا محسوس انداز میں اپنا پسینہ صاف کیا اور جا کر ڈسپنسر کو بلایا اور خود اٹینڈنس لگائے بغیر بے دہانی میں سکول سے باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے مرہا گھر ائی تھی مرہا کی خوب خاطرداری ہو رہی تھی چونکہ سکول سے فون حمدانی صاحب کو ایا تھا گھر میں گہما گہمی ہی تھی کہ اچانک مرہا کے تایا تائی فرحد بیغم اور احمد صاحب گھر اگئے سب کو یہ لگا کہ وہ ریحان سے ملنے کے لیے ائے ہیں چونکہ ریحان کتنے عرصے بعد پاکستان واپس ایا ہے سب وہیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انہوں نے اپنے بیٹے یاسر کے لیے مرہا کا ہاتھ مانگ لیا یاسر مرہا سے چار سال بڑا تھا یہ بات سن کر ہمدانی صاحب اپنے بھائی کو انکار نہ کر سکے اور اپنی بیگم سے اجازت لیتے ہوئے ان کو ہاں کرتی افرا تفری اور گہرا گہمہ گہمی میں رسم وہیں سرانجام دے گئی انگوٹھیاں تو تبدیل نہیں ہوئی لیکن ہاتھ میں پیسے رکھ دیے گئے میرا تھوڑا سا گھبرائی اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے باقی سب نے یہ محسوس نہ کیا لیکن ریحان نے اپنی بہن کے چہرے پر پریشانی صاف محسوس کی اس منگنی میں سب سے زیادہ خوش لائی بات تھی کیونکہ لائباہ کو اپنا اور ریحان کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ نظر نہیں ارہی تھی وہ بچپن سے ہی ریحان سے محبت کرتی تھی یا یہ اس کے دماغ میں اس کی ماں کی ڈالی ہوئی بات تھی کہ اگر ریحان سے اس کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ بہت سکھی رہی گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب مہمان گھر سے چلے گئے تو ریحان مرہا کے کمرے کی طرف گیا جب وہ میں کمرے میں گیا تو اس نے مرہا کو نماز پڑھتا پایا وہ عشاء کی نماز ادا کر رہی تھی عشاء کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر وہ پیچھے نہ محسوس انداز میں اواز کیے بغیر بستر پر بیٹھ گیا مرہا نے نماز ادا کی اور نماز ادا کر کے دعا میں ہاتھ اٹھانے کی بجائے سجدے میں چلے گئے اور رونے لگی پہلے تو ریحان کو لگا کہ اسے کچھ غلط لگ رہا ہے لیکن پھر ریحان نے محسوس کیا کہ وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی ہے ریحان نے تڑپ کر اواز دی مرہا گڑیا کیا ہوا ہے میری گڑیا کو ایسے کیوں رو رہی ہو میرا خانی بھائی کی اواز سن کے بھائی کی پریشانی سے بچنے کے لیے اپنے انسو صاف کیے اور بھائی کے ساتھ بیٹھ کے ریحان کے پوچھنے پر مرہا نے بتایا کہ اس کا دل بہت بے چین ہے جو کہ سچ بھی تھا کوئی وجہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا دل بہت بے چین تھا وہ اپنے بھائی سے اپنے دل کی ہر بات کر لیتی تھی تو اس نے اپنے بھائی کو بتایا کہ اس نے ہمیشہ سے یاسر کو اپنا بڑا بھائی ہی مانا ہے ریحان نے بہت محبت اور پیار سے سمجھایا کہ وہ اس کا بڑا بھائی نہیں وہ اس کا تایا ذات ہے اور تایا ذات محرم نہیں ہوتا مرحبا بہت جلدی سمجھ گئی تھی اور پھر میرے ہاتھ سو گئی اور ریحان کمرے سے اگیا پر اگلی صبح مرہا کو بہت زیادہ بخار تھا مرہا تین دن بخار میں تپتی رہی اور اس کے بعد چوتھے دن وہ سکول گئے سکول جا کے مرہ کو پتہ چلا کہ اج میچ کا ٹیسٹ ہے وہ تھوڑا سا گھبرائی اور وہ ترخان صاحب کو یہ بھی نہیں بتا سکتی تھی کلاس میں کہ اس کو ٹیسٹ نہیں اتا اور وہ ٹیسٹ نہیں دے گی کیونکہ اس کو ڈر تھا کہ جو کلاس میں پہلے باتیں ہو رہی ہیں درہان کے اس کو باہوں میں اٹھانے کی وجہ سے وہ ان کو ہوا نہ دے دے کیونکہ جس دن مرہا بے ہوش ہوئی تھی تو روحان نے اس کو سہارا دیا تھا اس کے بعد سے لڑکیاں مذاق مذاق میں سے ہی سہی پر کچھ فضول باتیں کر رہی تھی ترخان نے سب کو ٹیسٹ دیا لیکن مرہا کے ہاتھ میں ٹیسٹ نہیں دیا جب سب نے ٹیسٹ سالو کر لیا میرے ہاتھ صرف سکون سے بیٹھ کے اپنی کاپی کی طرف دیکھتی رہی سب بچیوں کے کلاس سے جانے کے بعد جب میرا اپنا بستہ بند کر رہی تھی اور عائشہ اس کا کلاس کے باہر انتظار کر رہی تھی تو ترہان صاحب نے مرہا کو روکا وہ شاید مرہا سے کچھ بات کرنا چاہ رہے تھے لیکن اس کی نیلی انکھوں میں دیکھ کے جانے وہ ایک لمحے کے لیے سب بھول گئے اور پھر صرف نہ انے کی وجہ پوچھ کر اس کو کلاس سے جانے کا کہہ دیا سب لڑکیوں میں ہونے والی باتوں سے کہیں نہ کہیں درخان صاحب بھی واقف تھے اج ریحان صاحب اور ہمدانی صاحب کام سے کہیں گئے ہوئے تھے امازان نے اپنی بیٹی کی بے چینی کو جانچتے ہوئے اج ایک ہفتے بعد اس سے بات کرنے کا سوچا اور کسی کو گھر نہ پاتے ہوئے اپنی بیٹی سے بات کرنے لگی کہ بیٹے اتنی پریشان کیوں ہو جس دن سے تمہاری بات پکی ہوئی ہے تم ٹھیک سے حسب بول ہی نہیں رہی مجھے بتاؤ کوئی بات ہے کوئی چیز تمہیں پریشان کر رہی ہے میرا خانہ جوابا کہا نہیں اماں جان ایسا کچھ نہیں ہے وہ نہیں جانتی تھی کہ ریحان باہر کھڑا دروازے کی اوٹ میں سب سن رہا ہے غیر ارادی طور پر وہ پہلے گھر اگیا تھا کیونکہ اسے تھکن محسوس ہو رہی تھی وہ جا کے سونا چاہتا تھا اماں جان نے مرہا سے پوچھا مرہا اگر کوئی اور وجہ ہے یا تم کسی اور کو چاہتی ہو تو بتاؤ مرہا نے جوابا کہا نہیں اماں جان ایسا کچھ بھی نہیں ہے اپ کا اور ابو کا فیصلہ میری سر انکھوں پر بس مجھے پتہ نہیں کیوں کچھ بے چینی سی ہو رہی تھی شاید طبیعت نہ ٹھیک ہونے کی وجہ سے اپ فکر نہ کریں ریحان نے یہ بات سنی اور وہ پرسکون ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا پر کہیں نہ کہیں اس کے دماغ میں ایک شخص ہے بیٹھ گیا
Comments
Post a Comment