INTEHAYE WASAL EPISODE 5
INTEHAYE WASAL EPISODE 5
میر خان نے انکھیں کھولی تو وہ ایک کمرے میں موجود تھی کمرے میں گھپ اندھیرا تھا اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے منہ پر ٹیپ لگی ہوئی تھی وہ مسلسل اپنے ہاتھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی پر کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا اچانک سے کمرے کا دروازہ کھلا اور تین وجود کمرے کے اندر داخل ہوئے
" ارے اتنی حسین لڑکی کہاں سے لے کے ایا ہے"
"ہاں نیا مال ہے بالکل نیو پیس
میں جانتا ہوں تم لوگوں نے میری اس کو اٹھانے میں مدد کی ہے پر میری ایک بات سنو پہلے میری پھر چاہے اس کے ساتھ جو بھی کرنا میں کچھ نہیں کہوں گا"
سامنے کھڑے وجود کی شکل دیکھ کر اسے اس بات کا بالکل یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یاسر بھی یہ باتیں کر سکتا ہے۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ زور زور سے چیخے۔
پر افسوس اس کے منہ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
ہاں انکھوں سے انسو مسلسل جاری تھے۔
اس کو ایک ویران جگہ پر لے کر ائے تھے جو شہر سے کچھ دور تھی۔
ان کے مطابق وہاں صرف وہ تین مرد اور مرہا تھے۔
پر وہ اس بات سے بالکل انجان تھے کہ اللہ نے مرہا کی مدد کے لیے ایک وسیلے کو بھیج دیا ہے۔
اللہ نے جب اپنے کسی پیارے بندے کو کسی مشکل سے نکالنا ہو تو وہ ہم میں سے ہی کسی کو وسیلہ بنا دیتا ہے۔
پر بچانے والا صرف اللہ ہے۔
یاسر اگے بڑھا تھا اور مرہا کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تو بوچا تھا اور اس کو اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا تھا۔
وہ بہت مشکل سے سانس لے پا رہی تھی۔
" ہاں کیا کہا تھا تم نے میں گھٹیا ہوں"
" یو لٹل سویٹ کر تم نے ابھی میرا گھٹیا پن دیکھا ہی کہا ہے اب دیکھو گی"
میرا مسلسل مزاحمت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
یاسر نے اس کے کندھے سے قمیض کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کے کھینچا تو قمیض دائیں بازو تک پھٹتی چلی گئی۔
اچانک دروازہ اتنی زور سے بجا کہ ان کا دل دہل گیا۔
اگلی افطار پر دروازہ ٹوٹ کر گر گیا۔
دروازے کے اس پر اور کوئی نہیں ترہان تھا۔
اس نے اپنے ہاتھ میں ایک سٹیل کا روڈ پکڑا اور دیوانہ وار ان تینوں مردوں کو مارنے لگا۔
اگلے چند ہی منٹوں میں وہ ان کو مار مار کر گرا چکا تھا۔
اس کی انکھیں سرخ انگارہ بنی ہوئی تھی پر منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا۔
اس نے اگے بڑھ کر مرہ کی انکھوں میں انکھیں ڈالے بغیر اپنی نظریں جھکا کر اس کے منہ سے پٹی اتارے۔
ایسے ہی اس کے ہاتھ کھولیں اور قریب بھی بڑی ایک چادر کو دوپٹے کی طرح اس کو اوڑھا دیا۔
مرہا مسلسل روئے جا رہی تھی۔ ترحان نے نظریں جھکا کر اس کے دائیں ہاتھ کو تھاما اور اس کو لے کر باہر کی طرف نکل پڑا۔
چند قدم اگے چلنے کے بعد مرہا بے ہوش ہو گئی۔
اس کو گرنے سے بچانے کے لیے ترہان نے اس کو اٹھا لیا۔
اور اٹھا کر اپنے بائک کی طرف چل گیا۔
اپنے بائیک پہ لٹکے اپنے بیگ میں سے پانی کی بٹل نکالی اور مرہہ کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر اس کو اٹھانے لگا
اپنی اس کوشش میں وہ چند منٹوں میں ہی کامیاب ہو گیا تھا۔
مرہا کچھ نہ بولی تھی شاید وہ اس سے پیچھے ہونے والے سارے واقعے سے بہت گھبرا گئی تھی یا اس میں کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔
ادھے گھنٹے کے سفر کے بعد جب وہ میرا کے گھر کے سامنے پہنچے تو مرہا نے اپنے قدم تیزی سے گھر کے اندر بڑھائے وہ بھاگتی ہوئی دیوانہوار گیٹ تک گئی اور گیٹ بجانے لگی۔
گارڈ گیٹ کھولا تو میرا کو اس حالت میں دیکھتے ہوئے گھبرا گیا۔
مرہ کو چکر ایا اور وہ دوبارہ گرنے لگی۔
اس سے پہلے وہ گرتی ترہان نے اسے تھاما اور سہارا دیتے ہوئے گھر کے اندر لے کے جانے لگا۔
جیسے ہی داخلی دروازے سے اندر گئے سامنے لاؤنج میں انہوں نے سب کو بیٹھے پایا۔
ہمدانی صاحب اسیہ بیگم اور ریحان سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔
فرحت بیگم اور احمد صاحب پھر لائبہ کے ساتھ قریب ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔
مرہا نے اپنے بابا کو دیکھا تو بھاگ کر ان کے پاس جانے لگی۔
اس سے پہلے وہ بابا کے قریب پہنچتی ریحان نے اس کا بازو کھینچا اور اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ دے مارا۔
میرا کی انکھوں سے انسو ایک لڑی کی طرح بہنے لگے اس کو یہ یقین نہیں ہوا تھا کہ اس پر ہاتھ اٹھایا گیا ہے۔
"بد کردار لڑکی تمہیں شرم نہ ائی"
ریحان دھاڑا تھا۔
ساری رات گزار کر اب واپس کیوں ائی ہوں۔
وہ جو اپنے بھائی کو اپنا سائبان سمجھتی تھی اج اس کے اس کے بارے میں نشتر جیسے الفاظ سن کر دنگ رہ گئی۔
یہ سب ہوتا دیکھ کر کوئی بھی کچھ نہ بولا تھا بس ہمدانی صاحب سر جھکائے کھڑے تھے اور اسیہ بیگم سر پکڑے بیٹھی ہوئی تھی
"نکاح کر لیا ہے یا ایسے ہی رات گزار کے ائی ہو"
" اللہ تمہیں برباد کرے گا اتنی معصوم شکل اور یہ حرکتیں شکر ہے میرا بیٹا وقت سے بچ گیا"
اب کی بار فرحت بیگم بولی تھی۔
ریحان نے اس کا بازو کھینچا اور اسے ترہان کے برابر میں لا کھڑا کیا۔
" مجھے تم سے اتنی نفرت ہو گئی ہے کہ میں تمہارے خون سے اپنے ہاتھ بھی نہیں رکھنا چاہتا۔ مجھے تم سے گھن ا رہی ہے"
دفع ہو جاؤ یہاں سے اور کبھی مجھے اپنی اس شکل نہ دکھانا"
رکو۔۔۔
ہمدانی صاحب بولے تھے۔
ریحان نکاح خواں کو بلاو۔
نکاح ابھی اور اسی وقت ہوگا۔
ترہان نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ان میں سے کسی نے ترہان کی ایک بات نہ سنی۔
نکاح خواں وہاں موجود تھا فارم فل کیے جا چکے تھے
ترہان کو بی بی یقین نہیں ارہا تھا وہ چاہ رہا تھا مرہا خود بولے۔
پر میرے ہاتھ اور جیسے ساکت ہو گئی تھی
اج اللہ نے اس کی عزت تو بچا لی تھی پر شاید بدلے میں اس کے سارے رشتے سارے مان سب چھوٹ گئے تھے۔
ترہان مرہا کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔
نکاح خوان ہے نکاح پڑھانا شروع کیا۔
میرا ہمدان کیا اپ کو 10 ہزار روپے سکہ راج الوقت میں
تر ہان حسن ولد محمد حسن کیا اپ کو اپنے نکاح میں قبول ہیں۔
قبول ہے۔
ترہان کو اپنی انکھوں پر اور اپنے کانوں پر یقین نہیں ارہا تھا
یوں ہی نکاح ہو گیا۔
ترہان نے مرہا کچھ چادر اڑائی۔
اور اس کا ہاتھ پکڑ کر حویلی سے باہر نکلنے لگا۔
مرہا نے ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔
اور وہ حویلی کے دروازے سے باہر نکلتی چلی گئی۔
Comments
Post a Comment