Intehaye wasal Episode 7
Intehaye wasal Episode 7
ترہان نے فوری اس کے وجود سے چادر جدا کی وہ مکمل گیلی تھی ۔
"" تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں میں اندر آؤں تو تم کپڑے بدل کر بیٹھی ہو۔ اور ہاں دروازہ لاک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ""
وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا اور میرہا اپنی آنکھوں میں ویرانی لیے اس کو دیکھ رہی تھی۔
ترہان پچھلے دس منٹ سے کمرے کے باہر چکر کاٹ رہا تھا۔
ترہان کو میرہا کے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میرہا کی یہ حالت دیکھ کر وہ بے چین تھا۔
ترہان نے اپنے ضبط پر قابو پا کر کمرے کا دروازہ کھولا
اور اندر چلا گیا میرہا کپڑے بدل کر بیٹھی ہوئی تھی۔
ترہان نے ٹرے اٹھائی اور اس کے سامنے رکھ دی
اور خود بھی وہیں بیٹھ گیا "" آؤ کھانا کھا لیں۔
میرہا اس کو دیکھ رہی تھی یہ شخص اس کی بے پناہ
فکر کیوں کر رہا تھا جب اس کے سب اپنوں نے تہمت لگا کر اس کو دھتکارا تھا تو اس نے اس کو عزت کیوں دی۔
"" کھاؤ نہ یار بہت بھوک لگی ہے۔""
"" مجھے بھوک نہیں ہے۔۔""
"" کیسے بھوک نہیں ہے میں جانتا ہوں کہ رات سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔ بھائی مجھے تو بہت بھوک لگی ہے۔ ""
جانے میرہا کے دل میں کیا آئی اور وہ بولنے لگی۔
"" میں مر کیوں نہیں گئی ہاں مجھے مرنے کیوں نہیں دیا
میرے اپنے میری تزلیل کرنے کی بجاۓ مجھے مار دیتے
میں اف بھی نہیں کرتی""
وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ ترہان نے کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اس کو گلے لگا لیا۔
اس کے آنسو ترہان کی قمیض پر گر رہے تھے۔ وہ رو رہی تھی اور ترہان کو لگ رہا تھا کہ کسی نے اس کا دل مٹھی میں دبوچ لیا ہے۔ وہ روتی رہی اور ترہان اس کی کمر سہلاتا رہا ۔جانے روتے روتے وہ کب سو گئی اس کو روتا دیکھ کر ترہان کی بھوک بھی مٹ گئی تھی۔ جب ترہان کو یقین ہو گیا کہ میرہا گہری نیند سو گئی تو اس نے میرہا کو بیڈ پر لٹایا اور اس کا سر سرہانے پر ٹکایا۔وہ ٹرے اٹھا جر کمرے سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے بعد فرحت بیگم اور احمد صاحب وہاں سے اپنے گھر چلے گئے اور لائبہ آسیہ بیگم کا خیال رکھنے کے بہانے سے رکی تھی۔ چونکہ آسیہ بیگم کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ ہمدانی صاحب کو چین نہیں مل رہا تھا آج دوسری رات تھی جب ان کی بیٹی گھر میں نہیں تھی۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا جب میرہا اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہوۓ ہوں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی جدائی بالکل برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اور اس وقت ان کو لوگوں کی باتوں کی اور ریحان کی آنکھوں دیکھی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ان کی بیٹی ان کے ساتھ یہ کرے گی۔ وہ غصے اور غم کے ملے جلے جزبات
میں سوچ رہے تھے کہ سوچتے سوچتے وہ سو گئے تھے۔
Comments
Post a Comment